قارئین! ہر روز میرے پاس دکھی ‘دکھیارے‘ غم کے مارے انوکھے کیس آتے ہیں‘ میں سن سن کر عادی ہوگیا ہوں لیکن بعض اوقات میرا دل خود خون کے آنسو روتا ہے‘ جب ایک طرف ماں دوسری طرف باپ جو کہ جوانی کی دہلیزیں طے کرکے بڑھاپے میں اپنا قدم رکھ چکےہوتے ہیں‘ ایک طرف بیٹی یا بیٹا جو کہ الہڑ جوانی میں اپنا قدم رکھ رہا ‘جذبات ‘جنون ‘خواہشات کا ایک گہرا سمندر اپنے اندر موجود ‘بس! ایک اصرار کررہا کہ مجھے یہاں شادی کرنی ہے‘ ماں بے بس‘ باپ بھی لیکن بیٹی یا بیٹا خودکشی‘ گھر سے نکل جانا‘ کورٹ میرج‘ یا فساد فتنہ اور گھر میں عزت اخلاق وقار کو پامال اور تار تار کرنا یا اس کی دھمکی‘ ایک انوکھا سماں ہوتا ہے وہ ماں جس نے ساری عمر سینےسےلگا کر اپنی اولاد کو پالا اور بچپن نہیں بلکہ شیرخوارگی سے ایک سچا جذبہ لے کر کہ میں اپنی بچی یا بیٹے کی شادی ان ارمانوں کے ساتھ کروں گی جب اسے اپنے سارے ارمان ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آتے ہیں اور اس کے اندر سے کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا کہ وہ اور اس کا تن کتنا ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہوتا ہے‘ میں نے ماں باپ کو ان حادثات اور واقعات میں شوگر‘ بلڈپریشر‘ گھٹنوں‘ جوڑوں کا درد‘ نظر اور یادداشت کی کمی حتیٰ کہ گزشتہ دنوں لاہور کے پاگل خانے میں میرا وزٹ تھا‘ وہاں بڑے ڈاکٹر نے پاگلوں کے کیس میں جو اہم چیز مجھے بتائی کہ جائیداد کے مسائل‘ گھریلو الجھنیں اور اولاد کی نافرمانی اور خاص طور پر اپنی مرضی کی شادی کے واقعات پاگل خانے میں لانے کا بہت زیادہ ذریعہ ہیں۔ میں ایک بات اپنےدرس میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ دعائیں بھی تعاقب کرتی ہیں اور بددعائیں یعنی لعنت بھی تعاقب کرتی ہے‘ اپنی پسند کی شادی جس پر ماں باپ کو بہت زیادہ مجبور کردیا جاتا ہے‘ اس کے بعد یقیناً ماں کی دعائیں ساتھ نہیں ہوتیں‘ بے بسی سے اپنی بیٹی کو رخصت کرتی ہے یا بے بسی سے رشتے پر ہاں کرتی ہے اور جس طرح باپ جو کہ ساری زندگی گھر کا حاکم اور حکمران رہا اپنی اولاد کے سامنے اپنی عزت اور وقار کی گردن کو جھکا دیتا ہے لیکن اس کےدل سےدعا تو نہیں نکلتی‘ آہیں ضرور نکلتی ہیں اور آبھی ایسی کہ دل کا انگ انگ ان آہوں کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے اور جب یہ بددعائیں لےکر بیٹا اور بیٹی اپنی مرضی کی شادیاں کرتے ہیں پھر مجھ جیسے لوگوں کے سامنے ان کے کیس آتے ہیں یا پھر کورٹ کچہری اور عدالتوں میں جاتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہو تو ساری زندگی کشمش‘ لڑائی‘ جھگڑے‘ پریشانی‘ دکھ تکالیف انہی چیزوں میں زندگی گزرتی ہے اور وہ اعلان تو نہیں کرتے لیکن ان کا اندر ایک اعلان اور واضح اعلان کرتا ہے کہ ہم نے پہلے دن ناکام زندگی کی بنیاد رکھی تھی اور ساری زندگی ناکامی ہمارا مقدر ہے اور کامیابی کے کسی ایک بھی کونے کو شاید ہم نہ چھو سکیں۔قارئین! ان کے روتے سسکتے بچے‘ کسی کے گھر کھانا نہیں‘ کسی کو شوہر چھوڑ کر دوسری کی تلاش میں نکل گیا‘ کسی کو ماں باپ نے چھوڑ دیا اور کہا کہ ساری زندگی تیرا ہمارا جینا مرنا ختم ہے‘ کچھ اس طرح کے غمناک واقعات ہوتے ہیں جو معاشرے کو مسلسل توڑتے جارہے ہیں‘ میرے پاس کئی خواتین ایسی آئیں کسی کے ساتھ بچہ‘ کسی کے ساتھ بچے کہ ہمیں محبت اور پیار میں شادی اور شادی کے بعد شوہر نے کچھ ہی عرصہ کے بعد یا کچھ سالوں کے بعد چھوڑ دیا اور تھک ہار کریا میں غلط راہوں پر چل پڑی ہوں یا پھر دربدرکی ٹھوکری کھارہی ہوں۔ کسی کو ماں باپ قبول کرلیتےہیں کسی کو ماں باپ قبول نہیں کرتے۔ کتنے قتل کے واقعات ایسے ہیں کہ لڑکی اپنے پیار کے ساتھ گھر کی دہلیز سے نکلی اس کو تلاش کرتے کرتے آخر غیرت کے نام پر اس کو قتل کردیا۔ میں دکھیارہ ہوں‘ غم کا مارا ہوں میری پہلے دن سے آج کی نوجوان نسل سے درخواست ہے کہ ماں باپ کی دعائیں لےکر گھر سے اپنی زندگی یعنی ازدواجی زندگی کی ابتدا کرنا‘ لڑکا ہو یا لڑکی ماں باپ کے پیار کو لے کر چلنا‘ ان کی دعائیں اور ان کا خلوص اور وہ بیٹی کو چلتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کہیں جا بیٹی رب تیرا وارث ہے اور بیٹے کی شادی کرتے ہوئے دن رات دعائیں کریں یااللہ! اس بیٹے کو آنے والی زندگی میں ہمیشہ کی عزتیں‘ خوشیاں اورکامیابیاں عطا فرما۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں